Thursday 16 June 2016

حسرتوں کو تو اجیرن بنا رکھا ہے۔


حسرتوں کو تو اجیرن بنا رکھا ہے۔
خواب تیرا ہی میں نے سجا رکھا ہے۔

کاش کہ ہم ویلے ہوتے۔


کاش کہ ہم ویلے ہوتے۔
زندگی عجب میلے ہوتے۔

وقت ہمارے پاس ہوتا۔
رکھے ہم نے لیلے ہوتے۔

کل جو تو نے میرا پیچھا کیا حافی۔
ہاتھ میں چھری ہوتی،نکالے تمہارے ڈیلے ہوتے۔

کاش! ابا ہماری شادی کروا دیتے۔
آج یوں نہ ہم اکیلے ہوتے۔

شادی پہ جو مرغ پلاوُ پکائے اچھا نہ کیا۔
مزہ تو تب تھا گر پکائے کریلے ہوتے۔

از قلم حافی

تاثیر ولی نگاہ استاد میں پائی


تاریک زندگی میں مہتاب کی طرح۔
تاثیر ولی نگاہ استاد میں پائی۔

حافی

زیست کی سرا میں ہوں



زیست کی سرا میں ہوں.
بس تری وفا میں ہوں.

گرمی کی وبا میں ہوں.
بس تری وفا میں ہوں.

جزبوں کی سزا میں ہوں.
بس تری وفا میں ہوں.

تجھ سے ہی بنا میں ہوں .
بس تری وفا میں ہوں.

حافی چل مسیتی چلیے

شوق نے تیرے سارے انوکھے۔
تینوں ایتھے کون او روکے۔

اسی تے دتی جان سی بیٹھے۔
لبھے لوک دلاں دے کھوٹے۔

سُکے دل وانگ ہڈاں دے۔
ویکھے نال لہو دے تو کے۔

ملنا دا وعدہ اوہ نہ آیا۔
ویکھیا رات، نہر کنارے کھلوکے۔

حافی چل مسیتی چلیے۔
کی لبا دل نوں دے کہ دھوکے۔
ازقلم حافی

اندھیروں میں تھا حافی

ان کے آنے سے زندگی میں روشنی ہے۔
وہ نہ تھے، تو اندھیروں میں تھا حافی۔

 حافی

مرنا یاد رہ جائے

تڑپ اتنی کہ اندیشہُ جاں باقی۔
سکوں اتنا کہ مرنا یاد رہ جائے۔
حافی

خواب اکثر ادھورے ہوتے ہیں

خواب.
کیا حسین رات تھی.

جب وہ میرے پہلومیں دیرے .
اور وارفتگی سے آکر بیٹھ گئی.
ادائے محبت سے زلفیں بکھیر دیں۔
نگاہ ناز نیں سے مجھے تکتی رہی۔
ناجانے میں کیوں اس لمہ لب خاموش لیے بیٹھا رہا۔
پھراچانک اٹھ کر خراما خراما ٹہلنے لگی۔
چہل قدمی کے دوارن جیسے میرے نام کی تسبیح پڑ رہی ہو۔
خراما خراما وہ راستہ لیا اور چلی گئی۔
آنکھ کھلی تو خود کو بند کمرے اور اندھیرامیں پایا۔
کاش آنکھ نہ کھلتی ۔خواب حسیں میں زندگی بسر ہو جاتی۔

خیر۔
خواب اکثر ادھورے ہوتے ہیں۔
وعدے حافی کب پورے ہوتے ہیں۔
اس رات اسکا ٹہلنا کسی مورنی سے کم نہیں تھا۔
مجھے تکنا ما نند ماہتاب تھا۔
ہا ئےکیا حسین رات تھی۔
حافی