Thursday 16 June 2016

حسرتوں کو تو اجیرن بنا رکھا ہے۔


حسرتوں کو تو اجیرن بنا رکھا ہے۔
خواب تیرا ہی میں نے سجا رکھا ہے۔

زندگی بھر کی ملا متیں،رسوائیاں، تانے۔
عشق کہ جزبوں میں نہ جانے کیا کیا رکھاہے۔

کرید کہ دیکھا ہاتھ کی لکیروں میں بہت۔
عکس یار ہر لکیر میں رب چھپا رکھا ہے۔

مسافر بنا کر راستوں کا چھوڑا جس نے۔
اسی کا نام خانہُ دل میں لکھا رکھا ہے۔

کاش ! وہ آ کر واپس نہ لوٹے کبھی۔
اس آس پہ گھر بار سجا رکھا ہے۔

ہنستی ہے دنیا ، اب میری بے بسی پہ حافی۔
تصادم کیسے سانسوں کا میں نے بنا رکھا ہے۔

از قلم حافی

No comments:

Post a Comment